زندگی تو خود ہی سے

زندگی تو خود ہی سے
رفتہ رفتہ گزرے گی
آخر زندگی ٹھہری

چاہے تنہائی کی رونق ہو
چاہے تم میسر ہو
وابستگی تو خود ہی سے
آھستہ آھستہ اترے گی
آخر وابستگی ٹھہری

چاہے لاکھ کوششیں کر لو
چاہے تھک ہار چھوڑ ڈالو
دھونے سے نہیں ھو گا
سرخیِ لہو تو خود ہی سے
آھستہ آھستہ اترے گی
لہو کی سرخی جو ٹھہری!