[ce_template id='1332']

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کتاب کے بارے میں لکھنا کتاب لکھنے سے زیادہ کٹھن ہو سکتا ہے ۔
دوسرے ممالک میں جاسوسی کے الزام میں پکڑے جانیوالے ازحد طربیت یافتہ افراد سے سچ اگلوانے کے آزمودہ ترین نسخوں میں ٹارچر ابھی تک سرِ فہرست ہے ۔ اس کی بنیاد انسانی سائیکی کے اس اصول اور فلاسفی پر ہے کہ ہم شدید کرب میں جھوٹ نہیں بول پاتے۔ سچ کہ ڈالتے ہیں۔حدٌِ کرب بھی سب سچ ہے جو میں نے شدید کرب کے دنوں میں لکھا۔ حتی کہ جب کتاب کا نام تجویز کرنے کی باری آئی تو مجھے ایک لمحہ بھی سوچنا نہ پڑا۔ یہ جگ بیتی نہیں۔ تصوراتی شاعری نہیں۔ ھڈ بیتی ہے جو میرے روم روم پر گزری۔
اگر میں سرد راتوں میں تا دیر سڑک پر رات گزار کر گھر واپس آ کر پھر کسی آھٹ پر باہر گیا تھا تو میں گیا تھا۔ اگر میں نے چاندنی راتیں ٹالیوں کی چھاؤں میں گزاریں تو گزاری تھیں۔ میں اس لمحے سے گزرا جب میں کسی کے بعد کئی برس نہ ہنسا۔ اور جب بہت سالوں کے بعد مسکرایا تھا تو مجھے اپنے چہرے کے وہ عضلات نئے محسوس ہوئے تھے جو مسکرانے میں استعمال ہوتے ہیں۔
پر وقت کی سب سے بڑی خوبی اور خامی یہی ہے کہ گزر جاتا ہے۔ سو گزر گیا۔ مجھ پر اپنے آثار کندہ کر کے اور ان آثاروں کے نقش حدِ کرب کی صورت میں آپ کے سامنے ہیں۔
یہ الفاظ غالبا ۹۳ء سے ۹۹ء کے درمیان لکھے گئے۔ ایک طویل عرصہ یہ حوصلہ نہ ہوا کہ یہ سب کسی کتاب کی شکل میں اکٹھا اور پھر پیش کیا جائے۔ ایک مدت غالباً بائیس تئیس سال گزر گئے اور وہ لمحے اور محسوسات اپنی دھار کند کر بیٹھے تو پھر سے میرے سامنے ان کھڑے ہوئے۔
ہر امر اپنے وقت کا مرہون ہوتا ہے ۔ شاید یہی وقت تھا ۔ شاید یہی وقت ہے کہ آپ حدٌِ کرب کو چھوئیں۔
آپ کو اس میں اپنی اپنی محبتوں کی شدتیں ملیں گی۔
بشرطیکہ آپ نے محبت کی تھی۔
بشرطیکہ آپ نے اسی شدت سے محبت کی جو اس کا حق ہوا کرتا ہے۔
سید حسن بخاری۔