عجب فقیر کر دیئے گئے ہیں کہ اپنی نظیر کر دیے گئے ہیں جو خلق خدا سے تھے چھپتے پھرتے عجب تشہیر کر دیئے گئے ہیں نظر آنا شروع ہوا تو اپنی نگاہ میں حقیر کر دیئے گئے ہیں ہماری سانسوں میں کربلا ہے کہ با ضمیر کر دیئے گئے ہیں یقیں کی سرحدوں کے اندر جا کہ کلِ شئ قدیر کر دئے گئے ہیں کرم ہے قلندر سائیں کا ہم پہ کہ صاحبِ تقدیر کر دیئے گئے ہیں