By Hassan Bukhari
یہ ان دنوں کی بات تھیجب جھیلوں سے پانی اترا تھاجب درختوں نے سوگ منایا تھااور پت جھڑ روپ کچھ نکھرا تھا
کچھ خنکی تھی ہواؤں میں کچھ خفگی تھی باتوں میں کچھ جذبے بھی تھے ماند ہوئےکچھ میں بھی بکھرا بکھرا تھا
تھی بے اعتنائی حرفوں میں تھی بے اعتباری لہجوں میں کچھ فیصلوں پہ اختیار نہ تھااور پیار کا دریا اترا تھا
یہ سب تو تب تھا کہ جب ہم تمذرہ ذرہ ہونے کو تھےاوریہ سب بھی افسردہ لگتے تھےتب چاند کی ٹھنڈی کرنیں بھیجھلمل جھلمل کرتی تھیں
تب ہم تو سمجھے تھے کہ جانِ وفاکہ جی نہ سکیں گے چند اور دن!!!پر آج کئی برس بیت چلےہم بھی زندہ ہیں اب تکاور تم بھی آباد تو ہو!!!
اس برس پھر یوں لگتا ہےکہ جھیلوں سے پانی اترا ہےکنول کچھ مرجھائے ہیں اور پت جھڑ روپ کچھ نکھرا ہےمجھے لگتا ہے کہ یہ سال یہ دن
تجدید وفا کے پیڑوں کی پچھلے برسوں کی ریاضت،کچھ ثمروں کوپھر بکھرانے آیا ہےجس عہد کو ہم نبھا نہ سکےوہ عہد نبھانے آیا ہے۔