[ce_template id='1332']

عہد

یہ ان دنوں کی بات تھی
جب جھیلوں سے پانی اترا تھا
جب درختوں نے سوگ منایا تھا
اور پت جھڑ روپ کچھ نکھرا تھا

کچھ خنکی تھی ہواؤں میں
کچھ خفگی تھی باتوں میں
کچھ جذبے بھی تھے ماند ہوئے
کچھ میں بھی بکھرا بکھرا تھا

تھی بے اعتنائی حرفوں میں
تھی بے اعتباری لہجوں میں
کچھ فیصلوں پہ اختیار نہ تھا
اور پیار کا دریا اترا تھا

یہ سب تو تب تھا کہ جب ہم تم
ذرہ ذرہ ہونے کو تھے
اوریہ سب بھی افسردہ لگتے تھے
تب چاند کی ٹھنڈی کرنیں بھی
جھلمل جھلمل کرتی تھیں

تب ہم تو سمجھے تھے کہ جانِ وفا
کہ جی نہ سکیں گے چند اور دن!!!
پر آج کئی برس بیت چلے
ہم بھی زندہ ہیں اب تک
اور تم بھی آباد تو ہو!!!

اس برس پھر یوں لگتا ہے
کہ جھیلوں سے پانی اترا ہے
کنول کچھ مرجھائے ہیں
اور پت جھڑ روپ کچھ نکھرا ہے
مجھے لگتا ہے کہ یہ سال یہ دن

تجدید وفا کے پیڑوں کی
پچھلے برسوں کی ریاضت،کچھ ثمروں کو
پھر بکھرانے آیا ہے
جس عہد کو ہم نبھا نہ سکے
وہ عہد نبھانے آیا ہے۔