کوئی مزاجِ یار کا حوصلہ کہ صبر کا بھی چارا نہیں وہ ہے بھی اور ہمارا نہیں
کوئی خیال ِ یار کا سلسلہ رکا بھی ہے اور رکا نہیں گلہ بھی ہے اور گلہ نہیں
کوئی وصال ِ یار کی آرزو مٹی بھی ہے اور مٹی نہیں کٹی بھی ہے اور کٹی نہیں
یہ جنم جنم کی مسافتیں یہ دن و رات کی مساحتیں رکی بھی ہیں اور رکی نہیں
یہ لمحے عجب تنہائی کے یہ جزبے نا رسائی کے نئے بھی ہیں اور نئے نہیں
تو کیا یہ عجیب سا راز ہے یہ کیسا کارساز ہے جو ہے بھی اور مجھ میں نہیں جو بسا بھی ہے اور کہیں نہیں جو میں بھی ہے اور میں۔۔۔نہیں جو ہے اور اس طرح سے ہے ۔۔ کہ ہے چار سو اور کہیں نہیں۔۔