بارشوں کے زور سے رات گرد گرد چھت دھل گئی تیری انگلیوں کی حدت تھی میرے ھاتھوں میں گھل گئی محبت منہ زور تو نہ تھی پر اک چھوٹی سی ضد پر تل گئی ھوا کے زور سے سمندر کی طرف کی کھڑکی کھل گئی سیھون سفر میں ساری ھستی بودلہ کی گلی میں رُل گئی بولنے کی تھی کبھی جو چاہت تھوڑی تھوڑی نہیں ، کُل گئی قلندر قبیلے کی رسم ہے حسن ہر اور چاہت دل سے دھل گئی ۔