گئے بھادوں کی بارش سے

گئے بھادوں کی بارش سے
ساری وادی دھل گئی
ہوا کی خنکی بڑھ گئی
شام کچھ اور کھل گئی
تیری ایک مسکراہٹ سے
ساری کدورت دھل گئی
میں جا کہ اس میں بس رہا
وہ میری ذات میں گھل گئی
میری یادوں سے محو نہ ہونے پر
جانے آج کل وہ کیوں تل گئی؟
اندر کی خاموشی کے بعد
ایک ایک گرہ کھل گئی
قلندر کی سرخیوں میں حسن
میرے خوں کی سرخی بھی گھل گئی